3 جنوری، 2023، 2:53 PM

شہید سلیمانی ولادت سے شہادت تک

شہید سلیمانی ولادت سے شہادت تک

شہید قاسم سلیمانی کے اوپر کئی بار جان لیوا حملے کئے گئے۔ پہلی بار سنہ 1982ء میں سازمان مجاہدین خلق (منافقین) سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے مشہد شہر میں ان پر جان لیوا حملہ کیا۔

شہید قاسم سلیمانی (1957۔2020 ء) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (Islamic Revolutionary Guard Corps) (ایران) کی سپاہ قدس کے سابق کمانڈر تھے۔ جنرل سلیمانی کو 3 جنوری 2020ء میں حشد شعبی عراق کے نائب رئیس ابو مہدی المہندس کے ہمراہ بغداد ایئرپورٹ پر امریکی فوج نے ایک ڈرون حملے میں شہید کر دیا۔

آپ ایران عراق جنگ میں 41 ویں (ثار اللہ) ڈویژن کرمان کے کمانڈر تھے۔ اسی طرح سے ایران عراق جنگ کی مختلف آپریشنز کے کمانڈروں میں سے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی سنہ 1997 ء میں جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے آئی آر جی سی (Islamic Revolutionary Guard Corps) کی سپاہ قدس کے کمانڈر منصوب ہوئے جو آئی آر جی سی کی بیرون ملک برگیڈ ہے۔ عراق اور شام میں داعش کے ظہور کے بعد قاسم سلیمانی نے سپاه قدس کے کمانڈر کی حیثیت سے ان ملکوں میں حاضر ہو کر عوامی رضاکار فورسز کو منظم کرکے داعش کا مقابلہ کیا۔

جنوری 2020ء میں شہادت کے بعد آپ کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

سوانح حیات

قاسم سلیمانی بن حسن 11 مارچ 1957ء میں ایران کے صوبہ کرمان کے شہر رابر کے مضافات میں سلیمانی قبیلے میں پیدا ہوئے۔ 18 سال کی عمر میں واٹر سپلائی محکمے میں ملازمت شروع کی۔ان کے بھائی سہراب شہید سلیمانی کے بقول، جنرل قاسم سلیمانی، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران کرمان میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کے بانی ہوا کرتے تھے۔ قاسم سلیمانی ایران عراق جنگ کے دوران رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ان کی 6 اولاد تھیں جن میں سے ایک کا انتقال ان کی زندگی میں ہو گیا۔ ان کی اولاد میں تین بیٹیاں نرجس، فاطمہ، زینب اور دو بیٹے حسین اور رضا ہیں۔

انہوں نے ایران عراق جنگ ختم ہونے کے بعد اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور سنہ 2005ء میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اہل مطالعہ تھے۔ سنہ 2016ء میں ان کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں جبرئیل گارسیا کی ایک کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں جیسے کتاب رادیو (خاطرات محمد رضا حسنی سعدی)، "گردان 409"، "وقتی مهتاب گم شد"، سربلند (داستان زندگی محسن حججی)، "آن بیست و سہ نفر و من زنده ‌ام" پر تقریظ و یادداشت بھی تحریر کی ہیں۔

سنہ 2018ء میں انہیں اس وقت کے آستان قدس رضوی کے متولی سید ابراہیم رئیسی کے حکم سے حرم امام رضا علیہ السلام کا خادم بنایا گیا۔

ایران عراق جنگ کے دوران

شہید قاسم سلیمانی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد سنہ 1980ء میں سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی میں بھرتی ہوئے اور ایران عراق جنگ کے دوران کرمان میں کئی بٹالین کو جنگی تربیت دے کر مورچوں کی طرف روانہ کیا۔ مختصر عرصے کے لئے انہوں نے سپاہ قدس کے آذربایجان غربی برگیڈ کی کمان سنبھالی۔جنرل سلیمانی سنہ1981ء میں سپاہ پاسداران کے اس وقت کے کمانڈر، محسن رضایی کے حکم سے سپاہ قدس کے 41ویں برگیڈ ثاراللہ کے سربراہ منصوب ہوئے۔ ایران کے خلاف عراق کی مسلط کرده جنگ کے دوران مختلف آپریشنز منجملہ والفجر 8، کربلا 4 اور کربلا 5 نامی آپریشنز کے کمانڈروں میں شامل تھے۔ کربلا 5 ایران عراق جنگ کے سب سے اہم آپریشنز میں سے ایک تھا جو عراق کی بعثی حکومت کی سیاسی و فوجی طاقت کو کمزور کرنے اور ایران کی فوجی قدرت میں اضافہ کا باعث بنا۔

شہید جنرل سلیمانی ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد سنہ 1989ء میں کچھ عرصہ تک لشکر 7 صاحب الزمان کے کمانڈر رہے۔[13] پھر دوبارہ لشکر 41 ثار اللہ کرمان کے کمانڈر بنائے گئے اور اس بات کے مد نظر کہ اس لشکر کی ذمہ داریوں میں سیستان و بلوچستان بھی شامل تھا، انہوں نے ایران کے مشرقی بارڈر سے ایران میں داخل ہونے ہونے والے مسلح دہشتگرد گروہوں کے ساتھ مقابلہ کیا۔جنرل سلیمانی سپاہ قدس کی سربراہی پر منصوب ہونے سے پہلے ایران و افغانستان کے بارڈر پر منشیات اسمگلینگ کرنے والے اسمگلروں کے ساتھ برسر پیکار رہے۔

سپاہ قدس کی ذمہ داری

شہید قاسم سلیمانی سنہ 1998ء کو ایران کے سپریم لیڈر آیت ‌اللہ خامنہ ای کی طرف سے سپاہ پاسداران انقلاب کے قدس برگیڈ کے سربراہ منصوب ہوئے۔ سپاہ قدس کو سنہ 1990ء میں ایران سے باہر کاروائیوں کی غرض سے تشکیل دیا گیا۔ اس کے پہلے کمانڈر جنرل احمد وحیدی تھے۔ ان کے بعد جنرل قاسم سلیمانی اس کے دوسرے کمانڈر بنے۔ ان کی شہادت کے بعد اسماعیل قاآنی کو اس کا کمانڈر بنایا گیا۔

افغانستان میں طالبان و القاعدہ سے مقابلہ

جس وقت شہید قاسم سلیمانی سپاہ قدس کے کمانڈر بنے اس وقت افغانستان میں طالبان اپنی فعالیتوں کے اعتبار سے اوج پر تھے۔ وہ افغان مجاہدین منجملہ احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔بعض مجاہدین کے بقول: وہ طالبان اور القاعدہ سے جنگ کے سلسلہ میں بار بار افغانستان کا سفر کرتے تھے۔ مجاہدین افغان سے طالبان کی جنگ کے دوران ان کے وادی شیر پنج جانے اور احمد شاہ مسعود سے ملاقات کا ویڈیو منظر عام پر آ چکا ہے۔ اسی طرح سے انہوں نے داخلی جنگ کے بعد افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلہ میں بہت سے اقدامات انجام دیئے ہیں۔

افغان فوجیوں کے مطابق افغانستان میں ان کی موجودگی کامیاب رہی ہے۔ کیونکہ ان کی شخصیت میں قربت و اپناپن کا عنصر نمایاں تھا جو آسانی کے ساتھ دوسروں کے اعتماد کو جلب کر لینے کا باعث بنتا تھا۔ وہ افغان اتحادیوں کے ساتھ احترام سے پیش آتے تھے اور بلا تکلف ان کے دسترخوان پر بیٹھ جاتے تھے۔ ان میں جنگ بندی کا میدان فراہم کرنے اور افواج کے مابین تعاون کا جذبہ پیدا کرنے کی بڑی استعداد تھی۔انہیں کردستان کی داخلی جنگ، ایران عراق جنگ اور ایران و افغان سرحدوں پر منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں سے مقابلہ کا بڑا تجربہ تھا۔

لبنان میں اسرائیلیوں سے مقابلہ

اسرائیل کے لبنان پر حملے اور 33 روزہ جنگ کے دوران شہید قاسم سلیمانی جنوب بیروت کے علاقہ ضاحیہ میں حزب اللہ کے مرکزی کمانڈر کنٹرول روم میں موجود رہے۔

عراق اور شام میں داعش سے مقابلہ

شہید قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار کمانڈروں میں سے تھے۔داعش ایک وہابی اور شدت پسند دہشتگر گروہ ہے جو عراق میں صدام کے سقوط کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ایران نے مشرق وسطی میں امن و امان کی بحالی کے لئے اس گروہ کے ساتھ مقابلہ شروع کیا۔ ایسنا نیوز کے مطابق سنہ 2011ء میں شہید جنرل سلیمانی کی قیادت میں فاطمیون برگیڈ اور زینبیون برگیڈ نے داعش سے مقابلہ کرنے کے لئے شام کا رخ کیا۔ اسی طرح سنہ 2014ء میں عراق کے شہر موصل پر داعش نے قبضہ کیا اور قریب تھا کہ عراق کا دار الحکومت بغداد بھی ان کے قبضے میں آ جائے؛ ایسے میں جنرل قاسم سلیمانی نے عراق کی رضا کار فورس حشد الشعبی کو منظم کرتے ہوئے داعش کو عراق سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عراق کے اس وقت کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے داعش کو شکست دینے میں عراق کے اصلی ترین اتحادیوں میں جنرل قاسم سلیمانی کا نام لیا ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کے 21 نومبر سنہ 2017 ء کو ایران کے داخلی اخبارات میں شائع ہونے والے خط میں آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں داعش کی نابودی کا اعلان کیا اور عراق کی سرحد پر واقع شام کے البوکمال نامی شہر میں شام کا پرچم لہرانے کی خبر دی۔

عراق میں عظیم اربعین اجتماع کے انعقاد میں تعاون
حسن پلارک (عتبات عالیات تعمیر نو کمیٹی کے صدر) کے مطابق شہید قاسم سلیمانی نے اربعین کے موقع پر نجف اشرف اور کربلائے معلیٰ میں پیادہ روی کرنے والے زائرین کے امن و امان کے سلسلہ میں اور اسی طرح اربعین کے زائرین کے لئے ہر طرح کی رفاہی و دیگر امکانات کی فراہمی میں کردار ادا کیا ہے۔

سماجی و اجتماعی فعالیتیں
سنہ 2019 ء میں ایران کے صوبہ خوزستان میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بعض اضلاع اس سے متاثر ہوئے۔ شہید قاسم سلیمانی نے علاقہ کا دورہ کرکے اربعین کی موکب کمیٹی سے درخواست کی کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کے لئے خوزستان آئیں۔ اسی طرح سے انہوں نے حشد شعبی کے نائب صدر شہید ابو مہدی المہندس کی مدد سے حشد شعبی کے افراد کو رضاکارانہ تعاون و مدد کے لئے خوزستان بلایا۔

فوجی اعزاز

جنوری 2011 ء میں انہیں ایرانی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے ترقی دے کر میجر جنرل کا درجہ عطا کیا گیا۔

اسی طرح سے 10 مارچ سنہ 2019 ء کو ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنہ ای کی طرف سے شہید جنرل سلیمانی کو - ایران کے سب سے اعلی فوجی اعزاز - نشان ذوالفقار سے نوازا گیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے فوجی اعزاز دینے سے مربوط قانون کے مطابق یہ نشان ان کمانڈروں کو اور فوجی آفیسروں کو دیا جاتا ہے جن کی حکمت عملی مختلف فوجی آپریشنز میں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہوں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ نشان دریافت کیا ہے۔

سنہ 2019ء میں امریکی اخبار فارن پالیسی نے اپنے ایک خصوصی شمارہ میں جس میں وہ ہر سال دنیا بھر کے 100 بہترین دانشمندوں کے نام تعارف کے طور پر شائع کرتا ہے، جنرل شہید قاسم سلیمانی کا نام دنیا کے 10 منتخب دفاعی۔امنیتی مفکروں میں شامل کیا۔

ناکام جان لیوا حملے

شہید قاسم سلیمانی کے اوپر کئی بار جان لیوا حملے کئے گئے۔ پہلی بار سنہ 1982ء میں سازمان مجاہدین خلق (منافقین) سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے مشہد شہر میں ان پر جان لیوا حملہ کیا۔ستمبر 2019 ء میں حسین طائب، سپاہ کی انٹیلیجنس کے سربراہ، نے بعض افراد کی گرفتاری کی خبر دی جو کرمان شہر میں قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔

شہادت

شہید جنرل قاسم سلیمانی 3 جنوری 2020 ء میں ایک دہشت گردانہ امریکی ڈرون حملے میں جو ان کی گاڑی پر اس وقت کیا گیا جب وہ بغداد ایئرپورٹ سے نکل رہے تھے۔ اس حملہ میں ان کے ساتھ عراق کے رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔  اس حملے کے کچھ دیر بعد امریکی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ قاسم سلیمانی کی گاڑی پر حملہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم سے کیا گیا ہے۔

رد عمل

آپ کی شہادت پر دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے و احتجاج ہوئے اور ان کی یاد اور تعزیت میں ایران کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک میں پروگرام اور تعزیتی جلسے و مجالس منعقد ہوئے۔ اسی طرح مختلف ممالک کی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے آپ کی شہادت پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تعزیتی پیغامات دیئے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں آپ کو مقاومتی بلاک کی بین الاقوامی شخصیت قرار دیا اور آپ کی شہادت کی مناسبت سے ایران میں تین دن سوگ کا اعلان کیا۔ ان کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی شخصیات ایرانی صدر، اسمبلی کے سپیکر اور چیف جسٹس، نجف اور ایران کے مراجع تقلید نے اپنے پیغام میں آپ کی شجاعت، اخلاص و فداکاری کی تعریف کی۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ، انصار اللہ یمن کے سربراہ، سید عبد الملک بدر الدین الحوثی، ایران، سوریہ، لبنان، عراق اور ترکی کے صدور، آپ کی شہادت پر بیان دینے والی سیاسی شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اس استکبار کے اس بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اسی طرح مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس انسانیت سوز اقدام کی مذمت کی۔ [حوالہ درکار] اسی طرح اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر، اگنیس کالامرڈ۔(Agnès Callamard) نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کے قتل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔[47] امریکہ کے مورخ ایروند ابراہمیان (Ervand Abrahamian) نے تاکید کی ہے کہ اس سانحے سے پہلے ایرانی قوم، امریکہ کو ایک سازش کار حکومت سمجھتی تھی اس حادثے کے بعد اسے ایک دہشت گرد حکومت بھی سمجھے گی۔ امریکی فیلم ڈائریکٹر، مایکل مور نے بھی امریکی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی اور اشاروں میں امریکہ کو جنگ طلب حکومت قرار دیا۔

شہادت کے نتائج
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعض مترتب ہونے والے اثرات و نتائج مندرجہ ذیل ہیں:

عراق سے امریکہ کے اخراج کا بل پاس؛ شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد، عراق کی بعض سیاسی پارٹیوں اور عوام کے بعض گروہ نے امریکہ کی فوج کو عراق سے نکالنے کا مطالبہ کیا اور عراقی پارلیمنٹ نے 5 جنوری 2020ء میں ایک فوری میٹینگ بلائی اور اس میں عراق سے امریکہ کی فوج کے انخلاء کا بل پاس کیا۔اگرچہ اس سے پہلے بھی جب حشد الشعبی کے مورچوں پر امریکہ نے حملہ کیا تو امریکی فوج کے انخلاء کی باتیں شروع ہوئی تھیں اور عراق کے مراجع تقلید میں سے آیت اللہ سید کاظم حائری نے امریکی فوجیوں کے عراق میں رہنے کو حرام قرار دیا تھا
عین الاسد ایئربیس پر ایرانی میزائیلوں کا حملہ:‌ 8 جنوری 2020ء کو ایران کے انقلاب اسلامی گارڈ کور نے قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے میں امریکی فوج کے عراق میں عین الاسد ایئربیس پر میزائیلوں سے حملہ کیا۔
4 جنوری کو روز جہانی مقاومت کے نام سے منسوب کرنا؛ جمہوری اسلامی ایران کے کیلینڈر میں اس دن کو روز جہانی مقاومت کے عنوان سے ثبت کیا گیا ہے۔

تشییع جنازہ و تدفین

قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی تشییع جنازہ 4 جنوری 2020 ء کو عراق کی سیاسی و مذہبی شخصیات اور عوامی شرکت کے ساتھ عراق کے شہر بغداد، کربلا اور نجف میں ہوئی۔ کربلا میں سید احمد الصافی (متولی حرم حضرت عباس (ع))،نجف میں شیخ بشیر نجفی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایرانی شہداء اور ابو مہدی المہندس کے جنازے ایران منتقل ہوئے اور 5 جنوری کو اہواز اور مشہد میں، 6 جنوری کو تہران اور قم میں تشییع جنازہ ہوئی۔

تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر شہداء کے جنازے پر نماز میت پڑھائی۔ تہران میں تشییع کے پروگرام میں حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے اپنی تقریر میں فلسطین کی آزادی کے سلسلہ میں ان کی کوششوں کا تذکرہ کیا اور انہیں شہید القدس کا نام دیا۔ روس کی نیوز ایجنسی روسیا الیوم نے آپ کی تشییع جنازہ کو امام خمینی کے بعد تاریخ کا سب سے بڑی تشییع جنازہ قرار دی۔ انقلاب اسلامی گارڈ کور کے ترجمان کے مطابق 25 میلین لوگوں نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔

قاسم سلیمانی کا جنازہ 7 جنوری کو شہر کرمان میں تشییع اور 8 جنوری 2020 ء کو اسی شہر میں دفن کیا گیا۔ ان کا جنازہ ان کی وصیت کے مطابق، ان کے قدیم دوست محمود خالقی کے ذریعہ اور محمد باقر قالیباف کی مدد سے دفن کیا گیا۔

وصیت نامہ

شہید قاسم سلیمانی کے چہلم کا پروگرام ایران کے مختلف شہروں اور بعض دیگر ممالک میں منعقد ہوا۔ تہران میں یہ پروگرام 13 فروری 2020 ء میں مصلی امام خمینی میں ہوا۔ سپاہ قدس (انقلاب اسلامی گارڈ کور) کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے اس میں ان کا وصیت نامہ پڑھا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی پیروی اور ولی فقیہ کی حمایت، شہداء کے بچوں پر توجہ و ایران کی مسلح افواج کا احترام ان کے وصیت نامہ میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے وصیت نامہ کے ایک حصہ میں جمہوری اسلامی کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے خیمہ حسین بن علی (ع) اور حرم قرار دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر دشمنوں نے اس حرم کو مٹا دیا تو کوئی بھی حرم باقی نہیں رہے گا، نہ حرم ابراہیمی اور نہ ہی حرم محمدی (ص)۔

مونوگراف

کتاب "حاج قاسم: (جستاری در خاطرات حاج قاسم سلیمانی)"، 167 صفحات پر مشتمل کتاب ہے جو ایران اور عراق جنگ کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے بعض تحریری نسخوں اور تقریروں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو انتشارات "یا زہرا (س)" نے سنہ 2016 ء میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ بھی ہوا ہے جسے جمعیت المعارف لبنان نے شائع کیا ہے۔
کتاب ذوالفقار: قاسم سلیمانی کی وہ یادداشت ہیں جو 1982 ء سے 2015 ء تک کے اپنے فوجی دوستوں کے بارے میں لکھی ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے ایران عراق جنگ اور شام و عراق میں داعش کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے احوال لکھے ہیں۔

مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ فارسی میں قاسم سلیمانی کے سلسلہ میں تین کتابیں اور لکھی گئی ہیں۔ ذیل میں ان کے ناموں کا ذکر کیا جا رہا ہے:
کتاب سربازان سردار مولف مرتضی کرامتی
کتاب سلوک در مکتب سلیمانی مولف محمد جواد رودگر
کتاب عقل سرخ (مجموعہ مقالات)

بشکریہ: ویکی شیعہ

News ID 1913989

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha